یروشلم …اسرائیلی وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حماس نے ہتھیار ڈالنے اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کو رہا کرنے سے انکار کیا تو غزہ پٹی کے کچھ حصوں کو فوری طور پر اسرائیل میں ضم کر لیا جائے۔یروشلم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتہا پسند دائیں بازو کے اس وزیر نے دعوی کیا کہ سنہ 2025 کے آخر تک غزہ میں مکمل فتح حاصل کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ موجود ہے۔ ان کے مطابق حماس کو ایک واضح الٹی میٹم دیا جائے کہ وہ ہتھیار ڈالے اور اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران قید کیے گئے اسرائیلیوں کو آزاد کرے۔سموٹریچ نے تجویز دی کہ اگر حماس انکار کرے تو اسرائیل کو چاہیے کہ چار ہفتوں تک ہر ہفتے غزہ کا ایک حصہ اپنے کنٹرول میں لے لے، جس کے بعد رفتہ رفتہ شمالی اور وسطی غزہ کا محاصرہ کر کے باقی جنگجوں کو ختم کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل تین سے چار ماہ کے اندر مکمل کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر زور دیا کہ اس منصوبے کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فوج غزہ شہر پر قبضہ کرنے کے لیے حملوں میں شدت لا رہی ہے، جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں وہاں کے شہریوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سخت تشویش ظاہر کر رہی ہیں۔دوسری جانب اسرائیل نے حال ہی میں مشرقی یروشلم میں ایک متنازع آبادکاری منصوبے کی بھی منظوری دی ہے جسے ای 1 کہا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی اور جنوبی حصوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دے گا۔ عالمی برادری نے اس فیصلے پر شدید ردعمل دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سے مستقبل میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات تقریبا ختم ہو جائیں گے۔سموٹریچ نے خود اعتراف کیا کہ ای 1 منصوبے کا اصل مقصد ہی “فلسطینی ریاست کے تصور کو دفن کرنا” ہے۔ یہ منصوبہ سب سے پہلے 1999 میں منظور کیا گیا تھا جس کے تحت تقریبا 12 ہزار دنم فلسطینی زمین پر نئی اسرائیلی بستیاں تعمیر کی جائیں گی تاکہ یروشلم کو مغربی کنارے کی بستیوں، خصوصا “معالیہ ادومیم”، کے ساتھ جوڑا جا سکے۔
غزہ کے حصے قبضے میں لینے کا منصوبہ سامنے آگیا:اسرائیلی وزیر کا نیا مطالبہ
17