جنیوا…اقوام متحدہ کے ریلیف چیف اور ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر نے دنیا کو ہلا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ غزہ باضابطہ طور پر قحط زدہ علاقہ بن چکا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بریفنگ میں ٹام فلیچر نے اعتراف کیا کہ غزہ کا یہ قحط روکا جا سکتا تھا مگر “ہمیں ہی روک دیا گیا”۔ انہوں نے کہا کہ خوراک اور امدادی سامان سے بھرے ٹرک غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں لیکن اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے اندر نہیں جا سکتے، اور نتیجے میں فلسطینی بھوک سے مر رہے ہیں۔فلیچر نے اسرائیلی بے رحمی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا:”کھانا محض چند سو میٹر دور موجود ہے، مگر نہ امداد کو آنے دیا جا رہا ہے، نہ فلسطینیوں کو جانے دیا جا رہا ہے۔”انہوں نے بتایا کہ یہ بحران سب سے زیادہ بچوں، خواتین اور کمزور طبقے کو متاثر کر رہا ہے۔ “والدین پر یہ کربناک فیصلہ مسلط کر دیا گیا ہے کہ وہ کس بچے کو کھانا کھلائیں اور کس کو بھوکا سلائیں۔”ٹام فلیچر نے کہا کہ یہ قحط ظالمانہ پالیسیوں، انتقامی سوچ، عالمی بے حسی اور شراکت داری کا نتیجہ ہے۔ “یہ پوری دنیا کے لیے شرمندگی کا باعث ہے اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔”انہوں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ اور امدادی ادارے بار بار خبردار کرتے رہے مگر بین الاقوامی میڈیا کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کے مطابق بعض اسرائیلی رہنما اس بھوک کو “جنگی ہتھیار” کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔فلیچر نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے براہِ راست اپیل کی کہ فوری فائر بندی کریں اور شمالی و جنوبی تمام کراسنگ کھول دیں تاکہ خوراک اور امدادی سامان بڑے پیمانے پر پہنچایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت سے رابطے میں ہیں اور صدر ٹرمپ نے بھی قحط ختم کرنے کی ہدایت دی ہے، تاہم اب الفاظ نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ادھر اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ڈھٹائی دکھاتے ہوئے قحط کی اقوام متحدہ رپورٹ کو مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ “حماس کا پروپیگنڈا” ہے جو مفاد پرست تنظیموں کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔
غزہ قحط زدہ قرار، اسرائیلی رکاوٹوں سے خوراک کے ٹرک سرحد پر رکے رہ گئے: اقوام متحدہ
19