غزہ کی پٹی میں اسرائیلی محاصرے اور امدادی رسائی پر پابندیوں کے باعث قحط کے پھیلاؤ کا سلسلہ جاری ہے، جہاں ایک 14 سالہ فلسطینی بچہ عبدالقدیر الفیومی بھوک اور غذائی قلت کے باعث دم توڑ گیا۔
فلسطینی سرکاری خبر رساں ادارے “وفا” کے مطابق، بچے کا انتقال غزہ سٹی کے الاہلی بپٹسٹ اسپتال میں ہوا۔ یہ بچہ ان 114 فلسطینیوں میں شامل ہے جو 7 اکتوبر 2023 سے اب تک بھوک اور غذائی قلت کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں 82 بچے شامل ہیں۔
غزہ کی پٹی، جہاں تقریباً 23 لاکھ افراد آباد ہیں، مکمل اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار ہے جس کے باعث خوراک، صاف پانی، دوائیں اور صفائی کی اشیاء تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی ادارے اسرائیل پر بھوک اور پیاس کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
فلسطینی حکام کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جو خیموں اور گنجان اسکولوں میں مقیم ہیں۔ ان مقامات پر بنیادی سہولیات کی کمی اور ناقص صفائی کے باعث بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

بین الاقوامی اداروں نے اسرائیل کے ان اقدامات کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا ہے۔ جنیوا کنونشن کے مطابق، قابض قوت کا فرض ہے کہ وہ زیر قبضہ علاقوں میں شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے۔ اسرائیل کی جانب سے امدادی قافلوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گالانٹ کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اسرائیل کو پابند کیا ہے کہ وہ انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی کو یقینی بنائے، تاہم زمینی حقائق اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔
جنوسائیڈ کنونشن 1948 کے تحت، اقوام متحدہ اور دیگر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیس میں اسرائیل پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا ہے، جس کی اسرائیل تردید کرتا ہے۔
سابق اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ مارٹن گریفتھس نے غزہ میں بھوک کو “اکیسویں صدی کا سب سے بڑا جرم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل نسل کشی کی واضح علامت ہے۔