ترکیہ میں آبادی میں تیز کمی کا دور شروع ہو چکا ہے، اور ترک ادارہ برائے شماریات (TURKSTAT) کے مطابق 2100 تک ملک کی مجموعی آبادی 5 کروڑ 40 لاکھ تک گر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی پیش گوئی اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے، جو کہ آبادی کو صرف 3 کروڑ 80 لاکھ تک دیکھ رہی ہے۔
یہ اعداد و شمار ترکیہ کی آبادی میں ایک سنگین تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس سے مستقبل کی افرادی قوت، سماجی تحفظ اور معاشی استحکام پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
1990 میں ترک خواتین کی شرح پیدائش اوسطاً 3.11 تھی، جو 2023 میں 1.51 اور 2024 میں مزید کم ہو کر 1.48 رہ گئی—جبکہ آبادی کی بقا کے لیے ضروری شرح 2.1 ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ ترکیہ کی شرح اتنی کم سطح تک پہنچی ہے۔
خاندانی و سماجی خدمات کی وزیر ماہنور اوزدمیر گوکتاش نے اس صورتحال کو “خطرے کی گھنٹی” قرار دیا اور کہا کہ “ترکیہ اب اپنی موجودہ آبادی کو برقرار رکھنے کی شرح سے بھی کم بچے پیدا کر رہا ہے۔”
2014 میں صرف ایک صوبے کی شرح پیدائش 1.5 سے کم تھی، لیکن 2024 میں یہ تعداد 55 تک جا پہنچی ہے۔ خاص طور پر شمالی اور مغربی صوبے اس بحران سے متاثر ہیں۔ بارطن اور اسکیشہر کی شرح صرف 1.12 ہے، جب کہ انقرہ اور زونگلدک بھی اسی کے قریب ہیں۔
مجموعی طور پر 71 صوبے اب آبادی کی بحالی کی حد سے نیچے ہیں، جب کہ 2017 میں یہ تعداد 57 تھی۔ اگرچہ ترکیہ اب بھی یورپی یونین کی اوسط شرح پیدائش 1.38 سے بہتر ہے، لیکن کمی کی رفتار کے باعث یہ خطے کی تیزی سے عمر رسیدہ ہونے والی اقوام میں شامل ہو گیا ہے۔
ترکیہ میں گھرانوں کا حجم بھی سکڑ رہا ہے۔ 2008 میں اوسط گھرانہ 4 افراد پر مشتمل تھا، جو 2024 میں کم ہو کر صرف 3.03 رہ گیا ہے۔ 2016 میں تنہا رہنے والے افراد کی شرح 14.9 فیصد تھی، جو 2024 میں بڑھ کر 20 فیصد ہو گئی ہے۔ بعض علاقوں میں یہ شرح 30 فیصد سے بھی زیادہ ہے، جیسے گوموشہانے (31.7 فیصد)، تونجیلی (29.8 فیصد) اور گیریسون (29.7 فیصد)۔
2024 میں شادیوں کی تعداد 5 لاکھ 68 ہزار رہی، لیکن طلاق کی تعداد بڑھ کر 1 لاکھ 87 ہزار ہو گئی، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سنگل والدین کے گھرانوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جو اب 10.9 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ بعض علاقوں جیسے بینگول، الازیغ اور ادانہ میں یہ شرح 13 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
حکومت نے اس بحران کو ایک قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے “خاندان اور آبادی کا عشرہ (2026–2035)” کے عنوان سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے تاکہ مشترکہ حکومتی اقدامات سے اس رجحان کو روکا جا سکے۔
2025 میں شروع کیے گئے “فیملی اینڈ یوتھ فنڈ” کے تحت 18 سے 29 سال کے نئے شادی شدہ جوڑوں کو ₺150000 کی مالی امداد دی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں زلزلہ زدہ علاقوں میں شادیاں 64 فیصد بڑھ گئی ہیں۔
بچوں کی پیدائش کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے نئی مالی اسکیم متعارف کرائی ہے۔ پہلے بچے کے لیے ₺5000، دوسرے بچے کے لیے 5 سال تک ماہانہ ₺1500، اور تیسرے بچے کے لیے ماہانہ ₺5000 فراہم کیے جا رہے ہیں۔
مزید برآں، کام کرنے والی ماؤں کے لیے “پڑوسن ماں” (Komsu Anne) کے نام سے ایک نیا کمیونٹی بیسڈ ماڈل بھی شروع کیا گیا ہے، جس میں تربیت یافتہ خواتین جزوقتی دیکھ بھال فراہم کرتی ہیں۔
حکومت نے والدین کے لیے جز وقتی کام کے حقوق بھی متعارف کرائے ہیں اور مردوں کو بچوں کی دیکھ بھال میں شامل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو ترکیہ کو طویل المدتی سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔