ترکیہ کے قید کردہ کرد رہنماؤں نے ترکیہ کے ساتھ جاری تنازعے کے خاتمے کی اپیل کی ہے، جس پر بین الاقوامی سطح پر مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ 27 فروری 2025 کو قید کردہ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے رہنما، عبد اللہ اوجالان نے ایک بیان میں کہا کہ کرد تحریک کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے ترکیہ کواقدامات اٹھانے چاہئیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں طرف کے لوگوں کو جنگ کے خاتمے اور مذاکرات کی میز پر آنے کی ضرورت ہے۔اس بیان کو کردش سیاست میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اوجالان نے اپنے پیغام میں کہا کہ PKK کی مسلح جدوجہد کے خاتمے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ ترکیہ مذاکراتی عمل میں شریک ہو۔ انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ پی کے کے کے عسکری و سیاسی حصوں کے درمیان سمجھوتے کی فضا بن سکتی ہے۔ اس بیان کے بعد ترکیہ میں حکومت اور سیاسی حلقوں کی طرف سے مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت نے فوری طور پر اس بیان کو مسترد کر دیا ہے اور اسے ملک کی سلامتی کے خلاف خطرہ قرار دیا ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ پی کے کے نے کئی دہائیوں سے ترکیہ کے اندر دہشت گردی اور تشدد کی کارروائیاں کی ہیں، اور اس طرح کے مذاکرات سے دہشت گردوں کو تسلیم کرنے کی غلط مثال قائم ہوگی۔
بین الاقوامی سطح پر اس بیان کو مختلف انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے کرد رہنماؤں کی طرف سے امن کی اپیل کا خیرمقدم کیا ہے، اور دونوں طرف سے بات چیت کے امکانات پر زور دیا ہے۔ تاہم، ترک حکومت کی طرف سے اس درخواست کو مسترد کیے جانے کے بعد سوالات پیدا ہو گئے ہیں کہ آیا واقعی تنازعہ کا کوئی پائیدار حل نکل سکے گا۔PKK کی طرف سے یہ بیان ایک اہم موقع پر آیا ہے، جب ترکیہ میں داخلی سیاسی اور اقتصادی چیلنجز بڑھ رہے ہیں، اور ترکیہ کا عالمی سطح پر کرد مسئلے کے حوالے سے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ، کردستان کے مختلف علاقوں میں جہاں PKK کی حمایت پائی جاتی ہے، وہاں بھی امن اور سیاسی تبدیلی کی خواہش بڑھ رہی ہے۔