Table of Contents
تہران: ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پہزشکیان نے ایک اہم پارلیمانی بل پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے تحت ایران کی جانب سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ہر قسم کا تعاون معطل کر دیا گیا ہے۔ یہ پیشرفت ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور امریکہ کے حالیہ حملوں کے خلاف ردعمل کے طور پر سامنے آئی ہے۔
یہ بل ایرانی پارلیمنٹ نے 25 جون کو منظور کیا، جس کے حق میں 221 ووٹ آئے، جبکہ کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ بل کی تمام شقیں بھی بھاری اکثریت سے منظور ہوئیں۔
آئینی کونسل کی منظوری کے بعد قانون کا فوری اطلاق
ایرانی آئین کی نگہبان کونسل نے 26 جون کو اس قانون کی توثیق کر دی، جس کے بعد حکومت کے لیے اس قانون پر عمل درآمد ناگزیر ہو گیا۔
نئے قانون کے تحت:
- IAEA کے کسی بھی انسپکٹر کو ایران میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
- ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق کوئی رپورٹ ایجنسی کو نہیں بھیجی جائے گی۔
- IAEA کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی سے کسی بھی قسم کا رابطہ یا تعاون ممنوع ہو گا۔
ایرانی حکام گروسی کو ایک “جاسوس” قرار دے چکے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

قانون کی معطلی کے لیے دو بین الاقوامی شرائط
قانون کے آرٹیکل 60 کے تحت یہ پابندی اُس وقت تک مؤثر رہے گی جب تک دو بین الاقوامی شرائط پوری نہ ہو جائیں:
- سلامتی کی ضمانت: ایران کی خودمختاری، علاقائی سالمیت، جوہری تنصیبات اور سائنسدانوں کی سیکیورٹی کو بین الاقوامی سطح پر مکمل ضمانت دی جائے۔
- حقوق کی ضمانت: جوہری توانائی کے پُرامن استعمال کا حق (جیسا کہ نیوکلئیر نان پرولیفریشن ٹریٹی NPT کے آرٹیکل 4 میں درج ہے) ایران کو مکمل طور پر دیا جائے۔
ان شرائط کی تصدیق صرف ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم (AEOI) کی رپورٹ اور قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل کی منظوری سے ہی ممکن ہو گی۔
حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر تین ماہ بعد پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کونسل کو اس قانون کے اطلاق یا معطلی سے متعلق تفصیلی رپورٹ فراہم کرے۔

بین الاقوامی ردعمل: ایران کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے
سات ترقی یافتہ ممالک کے گروپ (G7) نے اپنے اعلامیے میں واضح کیا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور مطالبہ کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر جامع، قابل تصدیق اور مستقل معاہدے کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا:
“ہم مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے اپنی وابستگی دہراتے ہیں اور اسرائیل کی سیکیورٹی کی حمایت جاری رکھیں گے۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ قانون نہ صرف ایران کے بین الاقوامی تعلقات کے لیے ایک بڑی تبدیلی ہے بلکہ جوہری توانائی کے عالمی نظام کے لیے بھی ایک چیلنج بن سکتا ہے۔
جب تک سلامتی اور حقوق کی بین الاقوامی ضمانت نہیں دی جاتی، ایران کا IAEA سے علیحدگی کا یہ فیصلہ تہران کے جوہری مستقبل کے حوالے سے دنیا بھر میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا کر سکتا ہے۔