ترکیہ اپنی توانائی کی حکمت عملی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ترکمانستان سے قدرتی گیس کی درآمد کے لیے تیار ہے، جس کے تحت سالانہ 65 ارب مکعب میٹر گیس کی ترسیل کی جائے گی۔ یہ معاہدہ ترکیہ کے لیے ایک اہم قدم ہے جس سے نہ صرف اس کی توانائی کی خودمختاری میں اضافہ ہو گا بلکہ اس کا مقصد عالمی توانائی منڈی میں ایک اہم مرکز بننے کا خواب بھی حقیقت کا روپ دھارے گا۔ توانائی کے ماہر اور ترکیہ کے توانائی حکمت عملی و پالیسی تحقیقاتی مرکز (TESPAM) کے صدراوگوزان اکینر کے مطابق، ترکمانستان سے گیس کی ترسیل 1 مارچ سے شروع ہوگی۔ یہ گیس ایران کے ذریعے ترکیہ پہنچے گی، جہاں ترکمانستان نے پہلے ہی ایران کو گیس فراہم کی ہے۔ اس طریقہ کار کو “سوپ میتھڈ” (Swap Method) کہا جاتا ہے، جس کے تحت ایران کی گیس کی ضروریات پوری کرنے کے بعد اضافی گیس ترکیہ کو فراہم کی جائے گی۔
اس معاہدے کا مقصد ترکیہ کو عالمی توانائی منڈی میں ایک مستحکم گیس مرکز کے طور پر متعارف کروانا ہے۔ ترکیہ نہ صرف اپنے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ اپنی توانائی کی ترسیل اور تجارتی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے بھی مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ ترکمانستان جو کہ دنیا کے سب سے بڑے قدرتی گیس کے ذخائر رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اپنے توانائی برآمدات کو مزید متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت، ترکمانستان کی گیس کا زیادہ تر حصہ چین کو فراہم کیا جاتا ہے، لیکن چین کے گیس کی درآمدات میں کمی کے باعث ترکمانستان دیگر مارکیٹوں تک اپنی رسائی بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے، اور ترکیہ اس کا اہم شراکت دار بن سکتا ہے۔
ترکیہ کے لیے یہ معاہدہ توانائی کے شعبے میں ایک بڑی کامیابی ثابت ہو سکتا ہے، جو نہ صرف اس کی توانائی کی خود مختاری کو بڑھائے گا بلکہ اسے خطے اور عالمی سطح پر توانائی کے کاروبار میں اہم مقام دلائے گا۔ اس کے علاوہ، ترکیہ کا مقصد 2050 تک قدرتی گیس کی درآمدات میں مزید اضافہ کرنا ہے، جس کے تحت ترکمانستان، آذربائیجان، قازقستان، ازبکستان، عراق اور مشرقی بحیرہ روم سے گیس کی درآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔ ترکیہ کی توانائی کی حکمت عملی کے تحت اگر تمام منصوبے کامیاب ہو جاتے ہیں، تو ترکیہ سالانہ 300 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس کی تجارت کرنے کے قابل ہو گا، جو اسے عالمی توانائی مرکز بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ نہ صرف ترکیہ کے توانائی کے معاملات میں اہم تبدیلیاں لائے گا بلکہ ترکمانستان کے لیے بھی اپنے توانائی کے برآمدات کے راستوں کو متنوع بنانے کی ایک اہم پیشرفت ہو گا۔