ترکیہ کے مغربی ساحل کے قریب بحرِ ایجین کے گہرے پانیوں میں 1500 سال پرانے بحری جہاز کی دریافت ہوئی ہے، جو آثارِ قدیمہ کی دنیا میں ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ یہ بحری جہاز بازنطینی دور سے تعلق رکھتا ہے اور اسے 5ویں صدی عیسوی کے اوائل کا بتایا جا رہا ہے۔ یہ انکشاف کمر اسکندر مرین پارک میں ہونے والے زیرِ آب تحقیقاتی منصوبے کے دوران ہوا، جہاں آثارِ قدیمہ کے ماہرین جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پانی کی تہہ میں چھپے اس ملبے تک پہنچے۔ماہرین کے مطابق، جہاز کی باقیات میں نادر تاریخی اشیاء دریافت ہوئی ہیں، جن میں روغنی مٹی کے برتن، قدیم سکے، اور تجارتی سامان شامل ہیں۔ ان اشیاء کو قدیم تجارتی راستوں، بحری سفر کے طریقوں، اور اس دور کی سماجی و معاشی زندگی کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ جہاز کی اچھی حالت اور سامان کا معیار اس دریافت کو خاص بنا دیتا ہے۔
یہ بحری جہاز اُس وقت کے بحری تجارتی راستوں کی ایک واضح تصویر پیش کرتا ہے، جب بحرِ ایجین یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان تجارت کا مرکزی مقام تھا۔ قدیم راستوں پر گزرنے والے جہازوں کا مطالعہ اُس وقت کی بحری معیشت اور ثقافت کی تہہ تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔
جہاز کے ملبے کی دریافت میں شامل ماہرین نے بتایا کہ اس سے حاصل ہونے والے برتن اور سکے قدیم بحری تجارت کے سامان اور ذخیرہ کرنے کے طریقوں پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جہاز کے سائز اور ڈھانچے کا جائزہ اس وقت کی جہاز سازی کی مہارت اور تعمیراتی صلاحیتوں کو سمجھنے میں مدد دے گا۔
یہ دریافت ترکیہ کے تاریخی ورثے کی بین الاقوامی سطح پر اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور دنیا بھر کے آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے لیے ایک تحقیقی مرکز بن سکتی ہے۔ سیاحت اور تعلیمی مقاصد کے لیے بھی یہ مقام انتہائی اہم ہوگا، کیونکہ یہ نہ صرف بازنطینی دور کی زندگی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ مستقبل کی تحقیقات کے لیے بھی ایک بنیاد فراہم کرے گا۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیرِ آب تحقیق کے دوران ملبے کے تحفظ کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے تاکہ اس کی تاریخی قدر کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ترکیہ کی حکومت اور آثارِ قدیمہ کے ادارے اس انکشاف کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جو قدیم تاریخ کے علم میں ایک اہم اضافہ ہے۔