ترکیہ نے دائیں بازو کی اپوزیشن جماعت ‘وکٹری پارٹی’ کے سربراہ اومیت اوزداغ کو سوشل میڈیا پر پناہ گزینوں کے خلاف پوسٹس کرنے اور عوام کو تشدد کی طرف مائل کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔رپورٹس کے مطابق، اوزداغ کو پولیس نے پیر کے روز تحقیقات کے لیے حراست میں لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے حالیہ دنوں میں اپنی ایک تقریر میں صدر رجب طیب ایردوان کی توہین کی تھی۔ استنبول کے چیف پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے انہیں توہین کے الزام میں رہا تو کر دیا، مگر ساتھ ہی عوام کو نفرت اور تشدد کی طرف اکسانے کے الزام میں ان کے خلاف گرفتاری کے احکامات بھی جاری کیے۔پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ اوزداغ کی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کی جانے والی گیارہ پوسٹس ان کے خلاف ثبوت کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔ ان پوسٹس میں پناہ گزینوں کے خلاف نفرت انگیز مواد اور اشتعال انگیز بیانات شامل تھے۔ پراسیکیوٹر نے اوزداغ کو اس بات کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا کہ گزشتہ سال ترکیہ کے وسطی صوبے قیصری میں شامی پناہ گزینوں کے خلاف ہونے والے فسادات میں ان کا کردار تھا، جس کے نتیجے میں شامی پناہ گزینوں کے کئی گھروں اور کاروباروں کو نقصان پہنچا تھا۔
استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو، جو ترکیہ کی بڑی اپوزیشن جماعت کے رکن ہیں اور صدر ایردوان کے ممکنہ حریف بھی ہیں، نے اوزداغ کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور ایکس پر لکھا کہ “یہ واضح طور پر عدلیہ میں سیاسی مداخلت ہے۔” امام اوغلو خود بھی 2022 میں انتخابی بورڈ کے اراکین کی توہین کے الزامات میں سزا کا سامنا کر چکے ہیں، جس کی اپیل عدالت میں برقرار رہنے کی صورت میں وہ دو سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پائیں گے۔وکٹری پارٹی کے سربراہ 63 سالہ اومیت اوزداغ، جو تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں، ترکیہ میں پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنی سخت پالیسیوں کی وجہ سے معروف ہیں۔ وہ بار بار شامی پناہ گزینوں کو ترکیہ سے نکالنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ اوزداغ کو استنبول کے قریب سیلیوری علاقے کی جیل میں قید کیا گیا ہے۔