حماس کے حکام کے مطابق ترکیہ کا غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کرانے میں اہم کردار رہا ہے۔ ترکیہ کی سفارتی کوششوں نے اس نازک جنگ بندی کو ممکن بنایا، جو مشرق وسطیٰ کی جیوپولیٹکس میں ترکیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ایک اور سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔حماس کے ایک سینئر نمائندے نے تصدیق کی کہ ترکیہ کی حکومت، صدر رجب طیب ایردوان کی قیادت میں، دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کلیدی کردار ادا کر چکی ہے۔ جنگ بندی کا معاہدہ، جو اس ہفتے کے شروع میں نافذ ہوا، اس تباہ حال علاقے میں کئی دنوں کی شدید لڑائی کے بعد منظور کیا گیا ہے اور اس سے بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کو راحت ملے گی اور ہلاکتوں کا سلسلہ رکنے کی امید ہے۔
حماس کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، حماس ہمیشہ ترکیہ کے سفارتی تعاون اور ثالثی کی قدر کرتی ہے۔ صدر ایردوان اور ان کی حکومت کی کوششیں جنگ بندی کے قیام میں اہم ثابت ہوئیں۔ انہوں نے مزید کہا، ترکیہ کا اس خطے میں اثر و رسوخ انکار کرنے کے قابل نہیں ہے، اور یہ ملک ہمیشہ غزہ اور پورے مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے لیے اپنے عزم کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ جنگ بندی، جو حماس اور اسرائیلی افواج کے درمیان کئی دنوں کی شدید لڑائی کے بعد ہوئی، اس تنازعے میں ایک اہم موڑ سمجھی جا رہی ہے۔ اگرچہ جنگ بندی کی شرائط حساس ہیں، یہ معاہدہ غزہ میں کشیدگی کم کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ جنگ بندی سے انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو گی اور دونوں فریقوں کے لیے امن کی طرف مزید اقدامات کے لیے مذاکرات کا دروازہ کھلے گا۔
ترکیہ، جو طویل عرصے سے فلسطینی حقوق کا حامی رہا ہے، نے اپنے سفارتی روابط اور اس خطے میں موجود تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ ترک حکومت نے حماس اور اسرائیلی حکام کے ساتھ براہ راست بات چیت کی، جس کا مقصد تشویش کو کم کرنا اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔صدر ایردوان، جو فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی مذمت کر چکے ہیں، نے جنگ بندی معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے عوامی خطاب میں کہا، “یہ جنگ بندی غزہ کے عوام کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ ہمارے حکومت کے عزم اور خطے میں امن و انصاف کے قیام کی طرف ہمارے مسلسل عمل کا ثبوت ہے۔”
اس جنگ بندی معاہدے میں ترکیہ کے کردار نے اس کے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے سفارتی اثر و رسوخ کو واضح کیا ہے۔ ترکیہ، جو نیٹو کا رکن اور ایک اہم علاقائی طاقت ہے، اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے ساتھ ساتھ فلسطینی مقاصد کی حمایت میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کے سفارتی اقدامات خطے کے تنازعات کے حل میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اگرچہ یہ جنگ بندی ایک مثبت قدم ہے، غزہ کی صورتحال اب بھی نازک ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ اس تباہ حال علاقے کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔ عالمی برادری امید کرتی ہے کہ یہ جنگ بندی طویل مدتی امن مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرے گی، اور ترکیہ کا سفارتی اثر و رسوخ اس عمل میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔