کوہِ ارارات، جو بائبل میں حضرت نوحؑ کی کشتی کے مقامِ نزول کے طور پر معروف ہے، ترکیہ اور آرمینیا کے درمیان ایک تاریخی اور ثقافتی علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پہاڑ ترکیہ اور آرمینیا کی سرحد کے قریب واقع ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم موضوع رہا ہے۔ترکیہ اس پہاڑ کو اپنی ملکیت تصور کرتا ہے، کیونکہ سوویت یونین نے تقریباً ایک صدی قبل اسے ترکیہ کے حوالے کیا تھا۔ دوسری جانب، آرمینیا کے لیے کوہِ ارارات ایک مقدس اور تاریخی علامت ہے، جو ان کی ثقافتی شناخت کا حصہ ہے۔
حالیہ برسوں میں، ترکیہ اور آرمینیا نے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کی ہیں، جن میں سرحدوں کو دوبارہ کھولنا اور سفارتی تعلقات کو بحال کرنا شامل ہے۔ تاہم، کوہِ ارارات کا مسئلہ اور 20ویں صدی کے اوائل میں ہونے والے واقعات پر اختلافات ابھی تک مکمل طور پر حل نہیں ہو سکے ہیں۔ترکیہ کا مؤقف ہے کہ کوہِ ارارات اس کی خودمختاری کا حصہ ہے اور وہ اس پر کسی دوسرے ملک کے حقوق تسلیم نہیں کرتا۔ مزید برآں، ترکیہ کا دعویٰ ہے کہ اس پہاڑ کے دامن میں کرد باغی گروہوں کی سرگرمیاں جاری ہیں، جو اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پاشینیان نے حالیہ بیانات میں اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ ماضی کے خوابوں کا تعاقب کرنے کے بجائے موجودہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے آرمینیائی عوام کو ماضی کی علامتوں پر اصرار کرنے کے بجائے مستقبل کی جانب دیکھنے کی ترغیب دی ہے۔کوہِ ارارات کا مسئلہ ترکیہ اور آرمینیا کے درمیان تعلقات کی بحالی میں ایک اہم رکاوٹ رہا ہے۔ دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس تاریخی اور ثقافتی مسئلے کو باہمی احترام اور مفاہمت کے ساتھ حل کریں، تاکہ خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔